محرمِ رازِ وفا عشق آشنا کوئی نہیں
کیا جہاں میں مجھ سا باقی دوسرا کوئی نہیں
بھول جائیں گے ستم ان کے سمجھ کر بھول تھی
اب جہاں میں اس طرح سے سوچتا کوئی نہیں
تا نہ کوئی حرف آئے آپ پر بس اس لئے
اب لبِ بسمل پہ آئے گی صدا کوئی نہیں
اے مسیحا صرف تجھ کو دیکھنے آتا ہوں میں
ورنہ مجھ کو ہے خبر میری دوا کوئی نہیں
آگئے بہر عیادت کس قدر وہ زود تر
روح کا جب رابطہ دل سے رہا کوئی نہیں
دہر میں قصہ ہمارے عشق کا مشہور ہے
گرچہ کرداروں کو اس کے جانتا کوئی نہیں
اضطراب شوق میں تا عمر جاگے ہم مگر
تا دمِ مرگِ وفا آیا گیا کوئی نہیں
جانےکیوں اب بھی مجھے سب پر بہت ہے اعتبار
جانتا یہ بھی ہوں میں اب پارسا کوئی نہیں
رنج و غم ہے درد ہے حسرت، الم، الجھن، فراق
کہتا ہے کہ میرا آسرا کوئی نہیں
جانب منزل چلا تھا لے کے کشتی زیست کی
کس طرح ساحل ملے جب ناخدا کوئی نہیں
یاں نمائش زخم کرنا زخم دل کی ہے محسن عبث
یاں کسی بھی لب پہ آئے گی دعا کوئی نہیں
29 مئی 2011
کراچی


مشخصات

تبلیغات

محل تبلیغات شما

آخرین مطالب این وبلاگ

محل تبلیغات شما محل تبلیغات شما

آخرین وبلاگ ها

برترین جستجو ها

آخرین جستجو ها

ربات مدیر گروه تلگرام پارس ادب اللهم عجل لولیک الفرج بحق زینب کبری سلام الله علیها سایت رسمی هلال احمر ـ جاسک مطلب آهو Zerger آموزش آنلاین زبان های خارجی pblog آموزش موبایل و کامپیوتر اجاره ماشین عروس و رنت و کرایه انواع خودرو سوشیا